یہ کیا وطیرہ تمہارے نئے نظام کا ہے
سوال صبح کا تھا اور جواب شام کا ہے
ہوئی ہے جب سے محبت میں میری رسوائی
تمام شہر میں چرچا تمہارے نام کا ہے
جو طے کیا ہے مشینوں سے آج انساں نے
وہ فاصلہ تو فقط میرے ایک گام کا ہے
غزل میں لفظ ادق آئنے پہ پتھر ہے
جو شعر سہل ہو وہ زندگی کے کام کا ہے
سوال یہ نہیں کس طرح کوئی جیتا ہے
سوال آج کے انساں کے احترام کا ہے
معززین میں ان سے بڑا ہے خوف مجھے
جنہیں خیال فقط اپنے احترام کا ہے
اڑاؤ تم بھی بزرگوں کا اے سعید مذاق
یہ فیصلہ ہی اگر شہر کے عوام کا ہے
سعید نعمانی مرادآبادی
No comments:
Post a Comment