پردۂ خلوت کے سرکانے کی گستاخی معاف
بے اجازت بھی چلے آنے کی گستاخی معاف
ہر ادا پر غور فرمانے کی گستاخی معاف
آج تو کچھ ہوش میں آنے کی گستاخی معاف
آج جیسا قرب شاید پھر کبھی حاصل نہ ہو
آج حالِ دل بھی کہہ جانے کی گستاخی معاف
خود تو ہوں بہکا ہوا روزِ ازل ہی سے مگر
آج کچھ تم کو بھی بہکانے کی گستاخی معاف
اے خدا! تیری خدائی مجھ پہ بے حد تنگ تھی
خودکشی کی موت مر جانے کی گستاخی معاف
واقعی اخگر جنوں میں جانے کیا کیا کہہ گیا
بندہ پرور، خیر دیوانے کی گستاخی معاف
اخگر مشتاق رحیم آبادی
No comments:
Post a Comment