راہ تشکیک سے ہٹتا تو یقیں پر آتا
مجھ سا گمراہ بھی افلاس کے دیں پر آتا
یہ بھی اچھا ہوا ٹوٹا نہ ستارہ کوئی
ورنہ الزام تو مجھ خاک نشیں پر آتا
ہم ہی صدیوں سے سزاوارِ جنوں ٹھہرے ہیں
اب بھی لازم ہے کہ یہ بار ہمیں پر آتا
اس نے بے داغ ہی رکھا ہے ہر اک رخ سے مجھے
داغِ سجدہ بھی نہیں میری جبیں پر آتا
میرے انکار کو انکار ہی سمجھا تُو نے
تُو مِرا تھا تو ذرا میری نہیں پر آتا
گردشیں میری خلاؤں میں ہی کیوں ہیں فیصل
آسماں سے جو گرا تھا تو زمیں پر آتا
فیصل طفیل
No comments:
Post a Comment