Friday, 15 August 2025

راہ تشکیک سے ہٹتا تو یقیں پر آتا

 راہ تشکیک سے ہٹتا تو یقیں پر آتا

مجھ سا گمراہ بھی افلاس کے دیں پر آتا

یہ بھی اچھا ہوا ٹوٹا نہ ستارہ کوئی

ورنہ الزام تو مجھ خاک نشیں پر آتا

ہم ہی صدیوں سے سزاوارِ جنوں ٹھہرے ہیں

اب بھی لازم ہے کہ یہ بار ہمیں پر آتا

اس نے بے داغ ہی رکھا ہے ہر اک رخ سے مجھے

داغِ سجدہ بھی نہیں میری جبیں پر آتا

میرے انکار کو انکار ہی سمجھا تُو نے

تُو مِرا تھا تو ذرا میری نہیں پر آتا

گردشیں میری خلاؤں میں ہی کیوں ہیں فیصل

آسماں سے جو گرا تھا تو زمیں پر آتا


فیصل طفیل

No comments:

Post a Comment