Monday, 25 August 2025

رات ہے یا سمندر کوئی کیوں اس میں ڈوب رہی ہوں

 عورت ذات


رات ہے یا سمندر کوئی

کیوں اس میں ڈوب رہی ہوں

تیری دید سے نہیں ڈرتی

مگر جدائی سے ڈرتی ہوں

وقت کا ظلم سہہ نہیں سکتی

ذرا ذرا بکھر جاتی ہوں

آنکھوں میں وہی لمحے ابھی تک ٹھہرے ہیں

آج بھی ڈوبتے سورج کے

منظر کی طرح ہوں

تاریکی سے

جب آنگن بھرنے لگتا ہے

تب تجھے رات کے پچھلے پہر

ڈھونڈنے نکلتی ہوں

میری ہر ادا سے واقف ہو تم

میں تو سیپ کے

اک گوہر کی طرح ہوں


فرخندہ رضوی خندہ

No comments:

Post a Comment