Thursday, 14 August 2025

شب کے پر ہول سے سناٹوں سے جان جاتی ہے

 شب کے پر ہول سے سناٹوں سے جان جاتی ہے

وصل کے لمحے بڑے دشمن جاں ہوتے ہیں

نرم پنچھی ہیں جہاں چاہیں بسیرا کر لیں

دل کے باسی ہیں بھلا دور کہاں ہوتے ہیں

نہ مچا شور دل زار! دھڑکنا بس کر

کتنے ارماں تیرے پاس پڑے سوتے ہیں

کتنے معصوم ہوا کرتے ہیں جذبہ دل کے

اور یہ معشوق یہ جذبوں سے سوا ہوا کرتے ہیں

عشق اک روگ ہے لگ جاتا ہے جاتے جاتے

اس کے بیمار تو راہوں میں پڑے ہوتے ہیں

کون جانے کہ غم عشق کا چرچا کیا ہے؟

بعد مرنے کے بھی یہ زخم ہرے ہوتے ہیں

گو تہِ خاک بھی جلنا ہے مقدر ان کا

لوگ کہتے ہیں کہ عشّاق پڑے سوتے ہیں

جو گئے دنیا کے ہر کام سے دیکھو سیماب

یہ حقیقت ہے وہی کام کے لوگ ہوتے ہیں


سیماب اویسی

مولانا محمد اکرم اعوان

No comments:

Post a Comment