داستاں ختم ہے اظہار وفا رہنے دو
اب مرے واسطے جینے کی دعا رہنے دو
قربتیں پیار کی تقدیس گھٹا دیتی ہیں
پیار کو لمس کی جنت سے جدا رہنے دو
پھر کسی زخم کے کھل جائیں نہ ٹانکے دیکھو
رہنے دو تذکرۂ رسم وفا رہنے دو
ریزۂ سنگ تو آیا گل منظر نہ سہی
کاسۂ چشم کو حیرت سے کھلا رہنے دو
ہم کو تپتے ہوئے صحرا سے گزرنا ہے ابھی
یاد کی چھاؤں میں کچھ دیر کھڑا رہنے دو
جادۂ عشق کٹھن ہے یہ سمجھ میں آ جائے
خار کے ساتھ یہ پتھر بھی پڑا رہنے دو
شان بے سمت نہ کر دے تمہیں صحرائے حیات
ذہن میں ان کے نقوش کف پا رہنے دو
سیدہ شان معراج
سیدہ شفق آراء
No comments:
Post a Comment