میرے داتا ترے سوا کیا ہو
کسی دربار سے عطا کیا ہو
زندگی زندگی جسے کہئے
اس سے بڑھ کر کوئی بلا کیا ہو
جو کرائے کے گھر بدلتے ہیں
ان کا اک مستقل پتہ کیا ہو
ماں جو تیرے لیے اٹھائے ہاتھ
اس سے بڑھ کر کوئی دعا کیا ہو
قتل غارت گری و ڈاکہ زنی
اس کا انجام اے خدا کیا ہو
میں بھی محتاج وقت بھی نادار
پھر دیا کیا ہو اور لیا کیا ہو
بزم میں یوں چلے تو جائیں گے
یہ بتاؤ کہ مدعا کیا ہو
جب عبارت ہے زندگی اس سے
درد دل کی کوئی دوا کیا ہو
بے رخی وہ برت رہے ہیں جمال
ابتداء یہ تو انتہا کیا ہو
ڈاکٹر محمد جمال
No comments:
Post a Comment