عشق تاروں سے نہ مہتاب سے دلداری کی
رات نے دھوپ کے بستر پہ سیہ کاری کی
میں وہ دہقان جنوں خیز ہوں جس نے اپنے
جسم کے کھیت میں زخموں کی شجرکاری کی
مدتوں لٹکی رہی موم کی زنجیر سے لاش
برف کے سوکھے ہوئے پیڑ پہ چنگاری کی
چند سانسوں کے لئے اپنا مداوا کر کے
تو نے امراض خداداد سے غداری کی
کچھ تغیر کی یہ راتیں بھی بہت لمبی ہیں
کچھ مری قوم کو عادت نہیں بیداری کی
سوئی کے چھید سے ہاتھی کا گزر ممکن ہے
اسے کہتے ہیں تخیل کی بہت باریکی
تم نے لفظوں کی نمائش پہ فقط دھیان دیا
میں نے کاغذ کے حسیں جسم پہ گلکاری کی
روح پر عطر لگا کے مرے پاس آیا کر
تیرے کردار سے بو آتی ہے مکاری کی
بزم دانش میں نہ منہ کھولنا اپنا حسرت
تجھ سے امید نہیں مجھ کو سمجھداری کی
لکی فاروقی حسرت
No comments:
Post a Comment