Friday, 15 August 2025

عشق تاروں سے نہ مہتاب سے دلداری کی

 عشق تاروں سے نہ مہتاب سے دلداری کی

رات نے دھوپ کے بستر پہ سیہ کاری کی

میں وہ دہقان جنوں خیز ہوں جس نے اپنے

جسم کے کھیت میں زخموں کی شجرکاری کی

مدتوں لٹکی رہی موم کی زنجیر سے لاش

برف کے سوکھے ہوئے پیڑ پہ چنگاری کی

چند سانسوں کے لئے اپنا مداوا کر کے

تو نے امراض خداداد سے غداری کی

کچھ تغیر کی یہ راتیں بھی بہت لمبی ہیں

کچھ مری قوم کو عادت نہیں بیداری کی

سوئی کے چھید سے ہاتھی کا گزر ممکن ہے

اسے کہتے ہیں تخیل کی بہت باریکی

تم نے لفظوں کی نمائش پہ فقط دھیان دیا

میں نے کاغذ کے حسیں جسم پہ گلکاری کی

روح پر عطر لگا کے مرے پاس آیا کر

تیرے کردار سے بو آتی ہے مکاری کی

بزم دانش میں نہ منہ کھولنا اپنا حسرت

تجھ سے امید نہیں مجھ کو سمجھداری کی


لکی فاروقی حسرت

No comments:

Post a Comment