کسے خبر تھی لبوں سے ہنسی بھی چھینے گا
زمانہ ہم سے ہماری خوشی بھی چھینے گا
سہارہ کون غریبوں کو دوست دیتا ہے
غریب کی تو کوئی جھونپڑی بھی چھینے گا
اسی کے دم سے ہے قائم نظام سانسوں کا
یہ زندگی ہے اسی کی کبھی بھی چھینے گا
یہ بات سن کے تعجب سا ہو رہا ہے ہمیں
کبھی کسی کی کوئی زندگی بھی چھینے گا
لگا دے شوق سے کوئی قلم پہ پابندی
ہے کس میں دم جو مِری شاعری بھی چھینے گا
ہے سادگی تو ازل سے ہی میری فطرت میں
وہ کون ہے جو مِری سادگی بھی چھینے گا
چمن میں شعلہ جو نفرت کا اٹھ رہا ہے یہاں
ہنسی گُلوں کی وہی تازگی بھی چھینے گا
اندھیرے جس کو مقدر نے دے دئیے ہیں مکیش
وہ سوچتا ہے مِری روشنی بھی چھینے گا
مکیش اندوری
No comments:
Post a Comment