Monday, 18 August 2025

کسے خبر تھی لبوں سے ہنسی بھی چھینے گا

 کسے خبر تھی لبوں سے ہنسی بھی چھینے گا

زمانہ ہم سے ہماری خوشی بھی چھینے گا

سہارہ کون غریبوں کو دوست دیتا ہے

غریب کی تو کوئی جھونپڑی بھی چھینے گا

اسی کے دم سے ہے قائم نظام سانسوں کا

یہ زندگی ہے اسی کی کبھی بھی چھینے گا

یہ بات سن کے تعجب سا ہو رہا ہے ہمیں

کبھی کسی کی کوئی زندگی بھی چھینے گا

لگا دے شوق سے کوئی قلم پہ پابندی

ہے کس میں دم جو مِری شاعری بھی چھینے گا

ہے سادگی تو ازل سے ہی میری فطرت میں

وہ کون ہے جو مِری سادگی بھی چھینے گا

چمن میں شعلہ جو نفرت کا اٹھ رہا ہے یہاں

ہنسی گُلوں کی وہی تازگی بھی چھینے گا

اندھیرے جس کو مقدر نے دے دئیے ہیں مکیش

وہ سوچتا ہے مِری روشنی بھی چھینے گا


مکیش اندوری

No comments:

Post a Comment