میں بنانے بیٹھتا ہوں کچھ تو بن جاتا ہے کچھ
کار خلقت میں کبھی ہوتا بھلا ایسا ہے کچھ
روز محشر اے خدا! اس بات کا رکھنا خیال
میں نے دنیا میں تری بویا تھا کچھ کاٹا ہے کچھ
آج پھر سے کوئی عاشق رمز عرفاں پا گیا
آج پھر سے محفل خوباں میں سناٹا ہے کچھ
آتش الفت میں جلنے کا مزہ لینے تو دے
راکھ میری مت اڑا مجھ کو ابھی جلنا ہے کچھ
جاں نکلنے کی دعا دو مجھ کو مرنے کی نہیں
جاں نکلنا اور کچھ ہے اور مر جانا ہے کچھ
یاد کرتے ہو بہت تنہائی میں اب بھی مجھے
مان بھی جاؤ تمہارا اور مرا رشتہ ہے کچھ
خیر ہو قاصد! تری کیا خوب ہے آمد کا وقت
آ پہنچتا ہے تو تب جب زخم دل بھرتا ہے کچھ
بس یہی کہہ دیں گے گر پوچھا گیا ہم سے سوال
دل کے ارماں کو کبھی کچلا ہے کچھ پالا ہے کچھ
کیوں بھلا منصور! کی تخلیق میں آئے کمال
اس کی نیت میں ہے کچھ کہتا ہے کچھ کرتا ہے کچھ
منصور محبوب
No comments:
Post a Comment