کچھ زخم تجھے ڈھونڈ کے پانے میں لگے ہیں
کچھ تجھ سے محبت کے نبھانے میں لگے ہیں
تعمیر تو کیا،۔ حسرتِ تعمیر نہیں ہے
ہم پھر بھی تِرے ناز اٹھانے میں لگے ہیں
وہ تیز ہوا ہے کہ بجھی جاتی ہیں شمعیں
اور آپ اندھیروں کو سجانے میں لگے ہیں
اک عمر سے انصاف کی زنجیر سمجھ کر
ہم پاؤں کی زنجیر ہلانے میں لگے ہیں
خود ہی جو اٹھائی تھی ہر اک جبر کو سہ کر
وہ ظلم کی دیوار گرانے میں لگے ہیں
کیا سادہ ہیں ہم سر کو تہِ تیغ جھکا کر
قاتل کو مسیحائی سکھانے میں لگے ہیں
شاید کبھی ہم بارِ امانت بھی اٹھائیں
اب تک تو جنازے ہی اٹھانے میں لگے ہیں
رضی عابدی
No comments:
Post a Comment