Wednesday, 13 August 2025

ہر سانس جیسے زہر کا اک جام ہو گئی

 ہر سانس جیسے زہر کا اک جام ہو گئی

اب زندگی بھی موردِ الزام ہو گئی

گُم صُم ہے چاند اور ستارے بھی ہیں خموش

کیا تیرے دردِ دل کی خبر عام ہو گئی؟

گُل پر ہے اختیار نہ خُوشبو کا اعتبار

گُلشن بھی کیا بہار بھی نیلام ہو گئی

راہِ وفا میں شوق کے جگنو چمک اٹھے

منزل سے دُور جب بھی کہیں شام ہو گئی

پہچانتا نہیں ہے کوئی تیرے شہر میں

کیا آبرو وفاؤں کی بدنام ہو گئی؟

دل کی زمیں پہ زخموں کی فصلیں اُگائیے

برسات آنسوؤں کی سرِ شام ہو گئی


حسنیٰ سرور

No comments:

Post a Comment