ہر سمت سلگتا ہے غربت کا شرر اب تک
روٹی کو ترستا ہے دنیا میں بشر اب تک
تم جتنا ستم ڈھا لو لیکن یہ حقیقت ہے
مظلوم کی آہوں میں باقی ہے اثر اب تک
جس سمت نظر اٹھے اس سمت بہاراں ہو
تجھ سا تو نہیں دیکھا انداز نظر اب تک
دن رات محبت میں مرتا ہی رہا جس پر
اس کو نہ ملی میرے مرنے کی خبر اب تک
جس راہ سے مڑ کر ہم آئے تھے اجی صاحب
بھولے سے کبھی ہم نے دیکھا نہ ادھر اب تک
تم میری رفاقت میں جس راہ سے گزرے تھے
میں بھول نہیں پایا وہ راہگزر اب تک
کس طرح کی بستی میں ہم آ کے بسے صارم
کاندھے پہ لیے لاشہ کی زیست بسر اب تک
عذیق الرحمٰن صارم
No comments:
Post a Comment