Tuesday, 12 August 2025

جام ہونٹوں سے لگاؤ تو ذرا آہستہ

 شام کے ساتھ جلا ایک دِیا آہستہ

بُجھ نہ جائے کہیں اے باد صبا آہستہ

یاد ایام کی تلخی بھی ملی ہے اس میں

جام ہونٹوں سے لگاؤ تو ذرا آہستہ

زخم ہی زخم ہے سر تا بہ قدم جسم مِرا

پھُوٹ جاؤں نہ کہیں دستِ ہوا آہستہ

بعد مُدت کے ابھی آنکھ لگی ہے غم کی

کوئی نوحہ، کوئی نغمہ کہ صدا آہستہ

ٹُوٹ جائیں نہ کہیں زخمِ جگر کے ٹانکے

اے مسیحا! ذرا تکمیلِ وفا آہستہ

مصلحت کیش خرابے میں شعور ہستی

جرم آہستہ، ابھی حرفِ جفا آہستہ

خواب کی وادیٔ گُلنار سے جاگی حسنیٰ

کوئی دیتا ہے مجھے جیسے صدا آہستہ


حسنیٰ سرور

No comments:

Post a Comment