اگرچہ جان کا خطرہ نئی اڑان میں تھا
پرندہ پھر بھی بہت دور آسمانوں میں تھا
ملی جو منزل امکاں بہ جستجوئے ہزار
عجیب نشہ سفر در سفر تکان میں تھا
اسی نے گھر کے چراغوں کی لو بڑھائی ہے
شمار جس کا کبھی ننگ خاندان میں تھا
میں دشمنوں سے ہر اک لمحہ تھا بہت محتاط
ملے گا زخم رفیقوں سے کب گمان میں تھا
میں تنگ آ کے تعطل سے دھوپ میں نکلا
سکون قلب و نظر یوں تو سائبان میں تھا
نسیم! چشم زدن میں زمیں پہ آن گرا
اگرچہ تیر ستمگر ابھی کمان میں تھا
نسیم مظفرپوری
نسیم اختر
No comments:
Post a Comment