بہت سہی غمِ فرقت پر اس قدر بھی نہیں
ہمارے حال کی تم کو ابھی خبر بھی نہیں
زمیں کے خشک لبوں تک تقاطرِ امطار
نہیں پہنچتا کچھ ایسا تو گو سفر بھی نہیں
تِرے بغیر مِری زیست تیرے غم کی قسم
بہت ہے تلخ مگر اس سے کچھ مفر بھی نہیں
کہاں وہ چشمِ غلافی پہ گرم و تیز نفس
کہاں یہ اب کہ اچٹتی سی اک نظر بھی نہیں
ذرا سا کچھ تو پتہ ہو تلاش سے پہلے
وہ کیسے پہنچے جسے کچھ عطر بھی نہیں
فضائے نورِ معنبر،۔ رِدائے عطر منیر
کچھ اس سے آگے خیالوں کی رہگزر بھی نہیں
👁 تِری نگاہِ تغافل کہ تیری چشمِ کرم 👁
کچھ اس سے بڑھ کے تو مفہومِ خیر و شر بھی نہیں
خالد حسن قادری
No comments:
Post a Comment