ذکرِ توبہ چھوڑ کر اب جام کی باتیں کریں
اہلِ غم کو چاہیے کچھ کام کی باتیں کریں
چھیڑ کر اے ہم نفس! دل کے شکستہ ساز سے
ابتدائے عشق میں، انجام کی باتیں کریں
آؤ مل کر آج ہم بھی اے اسیرانِ قفس
انقلابِ صبحِ خوں آشام کی باتیں کریں
رازدارِ عیش و غم، کوئی نہیں کوئی نہیں
کس سے ہم گزرے ہوئے ایام کی باتیں کریں
اللہ اللہ اپنی اس پاکیزہ خواہش کے نثار
تم سے ہم اپنے دلِ ناکام کی باتیں کریں
جس کے دم سے رونقِ میخانہ تھی، جب وہ نہیں
پھر بتاؤ، کس سے شغلِ جام کی باتیں کریں
جس سے اے حسرت! ہمیں ملتا ہے درسِ زندگی
دورِ موجودہ کے اس پیغام کی باتیں کریں
حسرت شادانی
عبدالقادر
No comments:
Post a Comment