Monday, 18 August 2025

اس برس خوشوں کے دانے کھیت مل کر کھا گئے

 اس برس خوشوں کے دانے کھیت مل کر کھا گئے

سیپیاں باقی رہیں،۔ موتی سمندر کھا گئے

اب فضا میں ڈھونڈتے رہیے وہ پیکر اب کہاں

کیسے کیسے دل نشیں چہروں کو منظر کھا گئے

پار جو اترے وہی اپنی کہانی کہہ سکے

کون جانے کشتیاں کتنی سمندر کھا گئے

بھیڑ میں جب تک رہے شامل رہے محفوظ ہم

بھیڑ سے بچ کر ذرا نکلے تو پتھر کھا گئے

جن کو قسمت نے بنایا بن گئے وہ کچھ سے کچھ

کیا کریں وہ جن کی تدبیریں مقدر کھا گئے

اب خدا جانے مسیحا کس لیے خاموش ہیں

شور تو یہ ہے کہ بیماروں کو بستر کھا گئے

احتیاطوں پر بھی افضل لغزشیں ہیں ناگزیر

ہر قدم پر دیکھتے چلتے بھی ٹھوکر کھا گئے


افضل کرتپوری

افضال حسین

No comments:

Post a Comment