Saturday, 23 August 2025

اس کو سننے نہ دیا اور ہمیں کہنے نہ دیا

 اس کو سننے نہ دیا اور ہمیں کہنے نہ دیا

درد نے اٹھ کے کبھی آپ میں رہنے نہ دیا

اب وہ بالیدگئ روح کا سامان کہاں

غمِ دوراں نے غمِ یار بھی کہنے نہ دیا

ضبط سے کام لیا ہم نے بہت کچھ لیکن

راز کو راز مگر آہ نے رہنے نہ دیا

اب نہ بے ہوش ہوں میں اور نہ کچھ ہوش مجھے

بے خودی تُو نے کسی حال میں رہنے نہ دیا

زندگی تُو ہی بتا تجھ کو کہاں پھینک آئیں

تُو نے ہم کو تو کسی کام کا رہنے نہ دیا


انور بھوپالی

سید نورالدین

No comments:

Post a Comment