اس کو سننے نہ دیا اور ہمیں کہنے نہ دیا
درد نے اٹھ کے کبھی آپ میں رہنے نہ دیا
اب وہ بالیدگئ روح کا سامان کہاں
غمِ دوراں نے غمِ یار بھی کہنے نہ دیا
ضبط سے کام لیا ہم نے بہت کچھ لیکن
راز کو راز مگر آہ نے رہنے نہ دیا
اب نہ بے ہوش ہوں میں اور نہ کچھ ہوش مجھے
بے خودی تُو نے کسی حال میں رہنے نہ دیا
زندگی تُو ہی بتا تجھ کو کہاں پھینک آئیں
تُو نے ہم کو تو کسی کام کا رہنے نہ دیا
انور بھوپالی
سید نورالدین
No comments:
Post a Comment