عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خونِ دل لفظوں سے بہہ نکلے کلام ایسا تو ہو
شعر میرا گنگنائیں خاص و عام ایسا تو ہو
چھوڑ کر امت نہ جو بھاگے امام ایسا تو ہو
مشکلیں جتنی پڑیں سب کر لے رام ایسا تو ہو
منہ سے تو ساحر کہیں لیکن امانت کے طفیل
ذہن و دل دونوں جھکیں خیرالانامﷺ ایسا تو ہو
دیکھ کر دنیا کہے انسان کہتے ہیں اسے
خواہشِ مولا ہے؛ یہ میرا غلام ایسا تو ہو
زیست فانی، دہر فانی، غیرِ فانی بس خدا
ہستی میری پھر بھی پائے کچھ دوام ایسا تو ہو
حمد ہو کچھ نعت ہو کچھ منقبت کی بات ہو
داد دیں مخدومئ عالم سلامﷺ ایسا تو ہو
یا علیؑ پر دشت میں پھر یا علیؑ پر بحر میں
جو ہے سچ مچ کا امام وہ تیز گام ایسا تو ہو
تھا بہت زائر کی قسمت پر ملک کو اضطراب
آنکھیں خیرہ ہو کے رہ جائیں مقام ایسا تو ہو
جتنی چاہو تم چڑھا لو حُبِ مولا کی شراب
پی کے جس کو نکھرے ایماں کوئی جام ایسا تو ہو
نوچ ڈالیں منکرِ حیدرؑ خود اپنی ہی قبا
میثمی افکار جب ہوں عرف عام ایسا تو ہو
جب امامِ وقت فہرستِ وفاداراں لکھیں
اس میں شارب ہو کہیں پر تیرا نام ایسا تو ہو
سید اقبال رضوی شارب
No comments:
Post a Comment