حیات لے کے بساط جہاں سے گزرا ہوں
کہ اک طویل رہِ امتحاں سے گزرا ہوں
قسم خدا کی تمہاری کہیں نظیر نہ تھی
تلاشِ حُسن میں کون و مکاں سے گزرا ہوں
ہوس ہے گلشنِ فردوس کی کسے واعظ
کہ ایک بار تو باغِ جناں سے گزرا ہوں
وہ بے خبر ہوں کہ منزل کی ہے تلاش اب تک
اگرچہ منزلِ رفعت نشاں سے گزرا ہوں
قدم جمے ہیں ابھی منزلِ یقیں میں ذرا
کہ مدتوں رہِ وہم و گماں سے گزرا ہوں
چمن کو لوٹ کے صیاد ہو گیا رخصت
کلیم صدیوں کے خوابِ گراں سے گزرا ہوں
برق آشیانوی
موسیٰ کلیم
No comments:
Post a Comment