Saturday, 16 August 2025

شکست عہد پر اس کے سوا بہانہ بھی کیا

 شکست عہد پر اس کے سوا بہانہ بھی کیا

کہ اس کا کوئی نہیں تھا مرا ٹھکانہ بھی کیا

یہ سچ ہے اس سے بچھڑ کر مجھے زمانہ ہوا

مگر وہ لوٹنا چاہے تو پھر زمانہ بھی کیا

میں ہر طرف ہوں وہ آئے شکار کر لے مجھے

جہاں ہدف ہی ہدف ہو تو پھر نشانہ بھی کیا

وہ چاہتا ہے سلیقے سے بات کرنے لگوں

جو اتنی سچ ہو بنے گی بھلا فسانہ بھی کیا

اسی روش پر چلو زندگی گزار آئیں

سوائے اس کے کریں حرف کو بہانہ بھی کیا

جو لفظ بھولنا چاہوں وہ یاد آتا ہے

مری سزا کے لیے اور تازیانہ بھی کیا

اب اس گلی میں ہے کیا انتظام کے لائق

تو پھر رسالۂ دل کو کریں روانہ بھی کیا

فراز ماہ بھی پہنائیاں بھی روشن ہیں

چراغ جلتا ہے کوئی تہہ خزانہ بھی کیا

جہاں بھی جاؤں وہی انتظار کی صورت

وہ مجھ کو چاہے مگر اتنا والہانہ بھی کیا

مرا وجود نہیں خانقاہ سے باہر

مگر فشار غزل میں یہ صوفیانہ بھی کیا


ابوالحسنات حقی

No comments:

Post a Comment