باغباں بد گماں نہ ہو جائے
دشمن آشیاں نہ ہو جائے
گردشیں بڑھ رہی ہیں قسمت سے
یہ زمیں آسماں نہ ہو جائے
مسکرا تو رہے ہیں آپ مگر
نذر آتش جہاں نہ ہو جائے
دیکھ لیں خود وہ تاب نظارہ
شرم جو درمیاں نہ ہو جائے
چٹکیوں سے تِری یہ پردۂ دل
جان من! دھجیاں نہ ہو جائے
بجلیوں کو ہے ضد کہیں جل کر
خاک یہ آشیاں نہ ہو جائے
تیری روداد عشق بھی پیکاں
قیس کی داستاں نہ ہو جائے
پیکاں چاندپوری
ماسٹر عبدالرشید
No comments:
Post a Comment