زندگی کو مِری محروم دعا رہنے دے
جو بھی تقدیر میں لکھا ہے لکھا رہنے دے
بستر مرگ پہ چپ چاپ پڑا رہنے دے
غم کے شعلوں کو نہ دے اور ہوا رہنے دے
پیار کا پنچھی پلٹ آئے گا کل ممکن ہے
واپسی کے لیے دروازہ کھلا رہنے دے
خوب سجتی ہے لبوں پر ترے پھولوں کی مہک
اپنے ہونٹوں پہ تبسم کی ضیا رہنے دے
تُو امیروں کا مصاحب ہے مبارک ہو تجھے
میرے حصے میں غریبوں کی دعا رہنے دے
وقت نے پھول سے ہاتھوں میں دیا ہے خنجر
ایسے حالات میں مت خواب سجا رہنے دے
فصل اخلاص کی اشرف نہ جھلس جائے کہیں
آگ نفرت کی نہ سینے میں جلا رہنے دے
صغیر اشرف وارثی
صغیراللہ اشرف
No comments:
Post a Comment