خلاف ظلم غزل بھی ہے جنگجو میری
یہی سبب کہ غزل ہے لہو لہو میری
جلا دی روح مری اس پہ یہ ستم دیکھو
گھمائی ایک صدی لاش کو بہ کو میری
ہاں مستفید ہوئے یوں ذلیل بھی مجھ سے
ادھار لے لی ذلیلوں نے آبرو میری
سنا ہے آگ سے وہ خوف تک نہیں کھاتا
پگھلنے لگتا تھا سن کر جو گفتگو میری
جنہوں نے خون کیا میرا بے دریغی سے
نکل پڑے ہیں وہی کرنے جستجو میری
عبث ہی ڈرتے ہیں مجھ سے گلاب سے چہرے
نگاہ رہتی ہے ہر آن با وضو میری
کوثر تسنیم سپولی
No comments:
Post a Comment