Monday, 11 August 2025

خلاف ظلم غزل بھی ہے جنگجو میری

 خلاف ظلم غزل بھی ہے جنگجو میری

یہی سبب کہ غزل ہے لہو لہو میری

جلا دی روح مری اس پہ یہ ستم دیکھو

گھمائی ایک صدی لاش کو بہ کو میری

ہاں مستفید ہوئے یوں ذلیل بھی مجھ سے

ادھار لے لی ذلیلوں نے آبرو میری

سنا ہے آگ سے وہ خوف تک نہیں کھاتا

پگھلنے لگتا تھا سن کر جو گفتگو میری

جنہوں نے خون کیا میرا بے دریغی سے

نکل پڑے ہیں وہی کرنے جستجو میری

عبث ہی ڈرتے ہیں مجھ سے گلاب سے چہرے

نگاہ رہتی ہے ہر آن با وضو میری


کوثر تسنیم سپولی

No comments:

Post a Comment