Thursday, 14 August 2025

سفر سے لوٹ کے ہم اپنے گھر نہیں جاتے

 سفر سے لوٹ کے ہم اپنے گھر نہیں جاتے

تھکن تو ہوتی ہے اے دوست! مر نہیں جاتے

یہ بات طے ہے فقط آبرو ہی جاتی ہے

ہے راہ عشق کبھی اس میں سر نہیں جاتے

اگرچہ منزل مقصود مل گئی ہوتی

تو در بدر کہاں پھرتے ٹھہر نہیں جاتے

تمہاری یاد میں حجرے میں لیٹ جاتے ہیں

غموں کے مارے ہوئے بام پر نہیں جاتے

وہ پانچ وقت بلاتا ہے ہم کو مسجد میں

ہیں بد نصیب بہت ہم اگر نہیں جاتے

جدائی یوں تو تن و سر میں ہو گئی رضوان

مگر یزید کے بچوں کے ڈر نہیں جاتے


رضوان حیدر

No comments:

Post a Comment