بھلا ہو اس کا جو رستے میں مجھ کو ڈال گیا
زمانہ سنگ سمجھ کر مجھے اچھال گیا
شجر بھی زور سے جس کے زمین بوس ہوئے
وہی تو جھونکا ہوا کا مجھے سنبھال گیا
تڑپ رہی ہے نظر آج بھی اسی کے لئے
وہ ایک جلوہ جو دل کو مرے اجال گیا
مرے تڑپنے پہ اس کو مذاق سوجھا تھا
ہنسی ہنسی میں ہر اک بات میری ٹال گیا
شکایتیں تھیں فقط ان کے دور رہنے تک
وہ پاس آئے تو دل سے ہر اک ملال گیا
مری تباہی پہ سب کی لگی رہیں نظریں
کسی کا بھی نہ تمہاری طرف خیال گیا
تغیرات نے سب کچھ بدل دیا عارف
زمانہ اک نئے سانچے میں ہم کو ڈھال گیا
جلال الدین عارف
No comments:
Post a Comment