Wednesday, 6 August 2025

بھلا ہو اس کا جو رستے میں مجھ کو ڈال گیا

 بھلا ہو اس کا جو رستے میں مجھ کو ڈال گیا

زمانہ سنگ سمجھ کر مجھے اچھال گیا

شجر بھی زور سے جس کے زمین بوس ہوئے

وہی تو جھونکا ہوا کا مجھے سنبھال گیا

تڑپ رہی ہے نظر آج بھی اسی کے لئے

وہ ایک جلوہ جو دل کو مرے اجال گیا

مرے تڑپنے پہ اس کو مذاق سوجھا تھا

ہنسی ہنسی میں ہر اک بات میری ٹال گیا

شکایتیں تھیں فقط ان کے دور رہنے تک

وہ پاس آئے تو دل سے ہر اک ملال گیا

مری تباہی پہ سب کی لگی رہیں نظریں

کسی کا بھی نہ تمہاری طرف خیال گیا

تغیرات نے سب کچھ بدل دیا عارف

زمانہ اک نئے سانچے میں ہم کو ڈھال گیا


جلال الدین عارف

No comments:

Post a Comment