Wednesday, 6 August 2025

زندگی اس کے سوا اب اور حل کوئی نہیں

 زندگی اس کے سوا اب اور حل کوئی نہیں

موت ہے اور موت کا نعم البدل کوئی نہیں

دل کسی بھی بات پر قائم نہیں رہتا کبھی

فیصلہ جیسا بھی ہو ہوتا اٹل کوئی نہیں

ہاتھ ہے اور دسترس میں کچھ نہیں رکھا گیا

باغ ہے لیکن وہاں موسم کا پھل کوئی نہیں

حوصلے کی داد دو کہ فیصلہ سنتے ہوئے

ہونٹ بھی خاموش ہیں ماتھے پہ بل کوئی نہیں

وصل کا اک باب بھی آنکھوں میں تیرا خواب بھی

کل تلک موجود تھا پر آج کل کوئی نہیں

عشق کے اس دین میں ہم بھی منافق ہو گئے

پہلا کلمہ پڑھ لیا لیکن عمل کوئی نہیں


شیراز علی

No comments:

Post a Comment