زندگی اس کے سوا اب اور حل کوئی نہیں
موت ہے اور موت کا نعم البدل کوئی نہیں
دل کسی بھی بات پر قائم نہیں رہتا کبھی
فیصلہ جیسا بھی ہو ہوتا اٹل کوئی نہیں
ہاتھ ہے اور دسترس میں کچھ نہیں رکھا گیا
باغ ہے لیکن وہاں موسم کا پھل کوئی نہیں
حوصلے کی داد دو کہ فیصلہ سنتے ہوئے
ہونٹ بھی خاموش ہیں ماتھے پہ بل کوئی نہیں
وصل کا اک باب بھی آنکھوں میں تیرا خواب بھی
کل تلک موجود تھا پر آج کل کوئی نہیں
عشق کے اس دین میں ہم بھی منافق ہو گئے
پہلا کلمہ پڑھ لیا لیکن عمل کوئی نہیں
شیراز علی
No comments:
Post a Comment