چہار سمت ملے کُو بہ کُو دکھائی دے
میں ایک نظم کہوں جس میں تُو دکھائی دے
وہ سامنے ہو تو سیراب اس طرح سے ہو
کہ چشم دید میں بھرتا سبُو دکھائی دے
خیالِ وصل سے زرخیز ہو زمین دل
تو پھر غزل میں تِری گُفتگُو دکھائی دے
یہ معجزات تِرے وصل سے نصیب ہوئے
تجھے جو سوچوں تو تو رُو بہ رُو دکھائی دے
تیرے خیال کی خُوشبُو سے ہم کہاں پہنچے
یہ نقشِ پا کی سبھی جُستجُو دکھائی دے
کسے زمین و زماں کی طلب رہے گی بھلا
جو عشق سجدے میں ہو قبلہ رُو دکھائی دے
سخن شناس نے بخشا ہے وہ جنون طلب
حسین رمز سحر چار سُو دکھائی دے
مہر حسین نقوی
No comments:
Post a Comment