Monday, 11 August 2025

تو وہی ہم بھی وہی قصہ پرانا ہو گیا

تُو وہی ہم بھی وہی قصہ پرانا ہو گیا

ہم کو گھر چھوڑے ہوئے اب اک زمانہ ہو گیا

شہر میں دستار کی باتیں ہوئی تھیں رات بھر

صبح ہوتے ہی کسی کا سر نشانہ ہو گیا

پار اترنا تھا ہمیں یا ڈوب مرنا تھا ہمیں

نا خدا ہی ڈوب جانے کا بہانہ ہو گیا

بارشوں کی زد میں آ کر ڈھ گئے کچے مکان

اور تھوڑی دیر کو موسم سہانا ہو گیا

اس کو سوچا اس کو چاہا پر نہیں دیکھا اسے

ربط میرا اس سے قائم غائبانہ ہو گیا


قائم نقوی

No comments:

Post a Comment