کسی کے غم کو گلے سے لگائے بیٹھے ہیں
ہم اپنے سارے غموں کو بھلائے بیٹھے ہیں
سکون دل کے لیے آج تیرے دیوانے
تِرے خیال کی دنیا سجائے بیٹھے ہیں
سیاہ رات ہے وہ آئیں تو اجالا رہے
اسی امید پہ شمعیں جلائے بیٹھے ہیں
کہاں سے لائیں وہ تنکے چنیں تو کس کے لیے
جو خود ہی اپنا نشیمن جلائے بیٹھے ہیں
اب ان کی سمت بھی ہو جائے کاش نظر کرم
جو لوگ دیر سے محفل میں آئے بیٹھے ہیں
کریں تو کس پہ کریں اعتبار اے راہی
ہر ایک دوست کو ہم آزمائے بیٹھے ہیں
کاظم رضا راہی
No comments:
Post a Comment