Friday, 15 August 2025

کوئی دیوار اٹھائی نہ کوئی در رکھا

 کوئی دیوار اٹھائی نہ کوئی در رکھا

اینٹ کو تکیہ کیا ریت کو بستر رکھا

پہلے آنکھوں میں ترا عکس اتارا میں نے

اور ان آنکھوں کو شیشے میں سجا کر رکھا

اس سے تسکین نہیں ہوگا اضافہ دکھ میں

دشت کا نام اگر ہم نے سمندر رکھا

پھول بھجوائے کبھی شعر کیے نام ترے

ہم نے اے شخص تجھے یاد ہے اکثر رکھا

درمیاں اپنے فقط روح کی دوری بچی تھی

ہم نے پھر بھی ترے پہلو میں نہیں سر رکھا

ورنہ ہر اگلا قدم پیچھے ہٹاتا مجھ کو

شکر صد شکر کہ کچھ دھیان نہ گھر پر رکھا

مشورہ چاہیے تھا کل ترے بارے میں مجھے

نہ ملا کوئی تو آئینہ برابر رکھا


فرہاد احمد فگار

No comments:

Post a Comment