کوئی دیوار اٹھائی نہ کوئی در رکھا
اینٹ کو تکیہ کیا ریت کو بستر رکھا
پہلے آنکھوں میں ترا عکس اتارا میں نے
اور ان آنکھوں کو شیشے میں سجا کر رکھا
اس سے تسکین نہیں ہوگا اضافہ دکھ میں
دشت کا نام اگر ہم نے سمندر رکھا
پھول بھجوائے کبھی شعر کیے نام ترے
ہم نے اے شخص تجھے یاد ہے اکثر رکھا
درمیاں اپنے فقط روح کی دوری بچی تھی
ہم نے پھر بھی ترے پہلو میں نہیں سر رکھا
ورنہ ہر اگلا قدم پیچھے ہٹاتا مجھ کو
شکر صد شکر کہ کچھ دھیان نہ گھر پر رکھا
مشورہ چاہیے تھا کل ترے بارے میں مجھے
نہ ملا کوئی تو آئینہ برابر رکھا
فرہاد احمد فگار
No comments:
Post a Comment