اتنی جلدی تو ترے فن میں نہیں آ سکتے
ہجر کے کھیل لڑکپن میں نہیں آ سکتے
کوئی دامن ہو سلامت تو چلو رو بھی لوں
میرے آنسو کسی کترن میں نہیں آ سکتے
ہم سے پاگل کو سمجھ پانا ترے بس کا نہیں
ہم وہ دریا ہیں جو برتن میں نہیں آ سکتے
ہم ہیں زنجیروں کی کھن کھن کے بگاڑے ہوئے لوگ
تیری پازیب کی چھن چھن میں نہیں آ سکتے
یہ مرے غم تو کسی اور پہ جچنے سے رہے
یہ وہ کپڑے ہیں جو فیشن میں نہیں آ سکتے
سلمان سعید
No comments:
Post a Comment