ہر گام حادثے ہیں مقدر بنے ہوئے
رہزن دکھائی دیتے ہیں رہبر بنے ہوئے
وہ دورِ خوشگوار خدا جانے کیا ہوا
مندر تھے مسجدوں کے برابر بنے ہوئے
کیا آشیاں کہاں کا چمن کیسے رنگ و بو
مدت ہوئی قفس کو مِرا گھر بنے ہوئے
ہم وہ نہیں جو رازِ غمِ دل عیاں کریں
زِنداں ہیں ہم سے لوگ سمندر بنے ہوئے
اے مفلسی! بتا تو سہی وہ کدھر گئے؟
کچھ لوگ تھے خلوص کے پیکر بنے ہوئے
بھیجا ہے اس نے خط بھی تو الفاظ کی جگہ
کاغذ پہ تیر ہیں، کہیں نشتر بنے ہوئے
شاید نہیں ہیں اب کہیں گوہر شناس لوگ
ہیرے پڑے ہیں راہ میں پتھر بنے ہوئے
قائم ہے بعد مرگ بھی بادہ کشی مِری
رکھے ہیں میری خاک کے ساغر بنے ہوئے
یاروں کو احتشام بنا کر حسیں کتاب
بیٹھے ہیں آپ درد کا دفتر بنے ہوئے
احتشام بچھرایونی
No comments:
Post a Comment