عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہی ہے جو زمانہ پالتا ہے
چھپی باتیں دلوں کی جانتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے وہی اک
مِری جانب مسلسل دیکھتا ہے
جہاں سویا ہوا ہو گرچہ سارا
وہ سنتا، دیکھتا وہ جاگتا ہے
کسی بھی راستے پہ چل کے آؤ
ہر اک رستہ اسی کا راستا ہے
میں تنہا ہوں تو جیسے پاس میرے
مجھے کیا چاہیے؛ وہ پوچھتا ہے
مِرا مجھ سے زیادہ خیر خواہ جو
کوئی ایسے بھلے سے بھاگتا ہے؟
میں اس کو چھوڑ کر دنیا کو دیکھوں
بتا اے نفس! تو کیا چاہتا ہے؟
میں شہر عشق میں رہتا ہوں یعنی
مِرا آئینہ باطن دیکھتا ہے
بظاہر ہوں بڑا خاموش لیکن
"مِرے اندر مدینہ بولتا ہے"
مدینے والا اس سے خوش نہ کیوں ہو؟
جو اس کے دلربا کی مانتا ہے
مدینے سے ملا فیضی ہمیں وہ
جسے ہر جا زمانہ ڈھونڈتا ہے
مبشر حسین فیضی
No comments:
Post a Comment