Friday, 22 August 2025

ہوا کا تلخ لہجہ ہے چراغوں کی پریشانی

ہوا کا تلخ لہجہ ہے چراغوں کی پریشانی

چمکتے چاند سورج ہیں ستاروں کی پریشانی

کناروں میں بھی شاید ڈوب جانے کی طلب ہوگی

پتہ کیسے کریں گے ہم کناروں کی پریشانی

مرے پیارے ہماری زندگی میں اور بہت غم ہیں

محبت ہجر یہ تو ہیں ہزاروں کی پریشانی

یہ صحرا بھی تو شاید دھوپ ہی سے تلملاتا ہے

سمندر دور کر ان ریگزاروں کی پریشانی

نہ جانے کیسے کیسے نقش پا کو سر پہ لیتے ہیں

یہ کوئی کم نہیں ہے یار پتوں کی پریشانی

وہی بچے کہ جس کو بولنا چلنا سکھایا تھا

وہی بچے ہی کیوں ہیں آج ماؤں کی پریشانی

درختوں کو بھی شاید ہجرتوں کے رنگ چکھنے ہیں

ٹہلتی ڈالیاں کہتی ہیں پیڑوں کی پریشانی

ہوائیں چل رہی ہیں ان کو رکنا ہو کہیں شاید

پتا کرتے چلو کیا ہے ہواؤں کی پریشانی


اویس گراچ 

No comments:

Post a Comment