دم بھی نہ لینے پاؤ گے دن کی تکان سے
اتنے میں تیر برسیں گے شب کی کمان سے
لفظوں کے پتھروں ہی سے آؤ تراش لیں
کچھ ساعتیں حسین سی لمحے جوان سے
آنسو جو کوئی آنکھ سے ٹپکا تو یوں لگا
جیسے ستارے ٹوٹ گرے آسمان سے
جاتی ہے خوئے سیر فلک کب خیال کی
آتا کہاں ہے باز پرندہ اڑان سے
وہ خواب جن کو قوس و قزح کی طرح سجائے
بکھرے پڑے ہیں ذہن میں ٹوٹی کمان سے
اک اور طرزِ فکر میں الجھا گیا ہمیں
آئینے کا گریز نہ کرنا چٹان سے
کیسی ہوا چلی کہ اڑا لے گئی ایاز
بینائیاں کمیں سے اجالے مکان سے
ایاز اعظمی
رئیس احمد
No comments:
Post a Comment