Monday, 25 August 2025

دم بھی نہ لینے پاؤ گے دن کی تکان سے

دم بھی نہ لینے پاؤ گے دن کی تکان سے

اتنے میں تیر برسیں گے شب کی کمان سے

لفظوں کے پتھروں ہی سے آؤ تراش لیں

کچھ ساعتیں حسین سی لمحے جوان سے

آنسو جو کوئی آنکھ سے ٹپکا تو یوں لگا

جیسے ستارے ٹوٹ گرے آسمان سے

جاتی ہے خوئے سیر فلک کب خیال کی

آتا کہاں ہے باز پرندہ اڑان سے

وہ خواب جن کو قوس و قزح کی طرح سجائے

بکھرے پڑے ہیں ذہن میں ٹوٹی کمان سے

اک اور طرزِ فکر میں الجھا گیا ہمیں

آئینے کا گریز نہ کرنا چٹان سے

کیسی ہوا چلی کہ اڑا لے گئی ایاز

بینائیاں کمیں سے اجالے مکان سے


ایاز اعظمی

رئیس احمد

No comments:

Post a Comment