Sunday, 24 August 2025

اک مصیبت یہ ہے کہ دل مرا برہم بھی ہے

 اک مصیبت یہ ہے کہ دل مِرا برہم بھی ہے

اور اس دل میں تِری یاد کا ماتم بھی ہے

فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ کیا چننا ہے

دامن وقت میں آنسو بھی ہیں مرہم بھی ہے

مجھ سے ملنے کی خوشی مجھ کو بہت ہے لیکن

اک طرف تم سے بچھڑنے کا مجھے غم بھی ہے

سرد ہے رات دسمبر کا مہینہ اور میں

اور اس پر یہ تِرے ہجر کا موسم بھی ہے

روپ عورت کے بہت ہیں کسے معلوم نہیں

ہے کہیں ہندہ بنی اور کہیں مریم بھی ہے

ایک میں ہی نہیں نکلا ہوں تمہارے دل سے

ہم سا اک خلد سے نکلا ہوا آدم بھی ہے

کیسے سمجھے کوئی چہرے کے تأثر سے تجھے

لب پہ مسکان بھی ہے آنکھ میں شبنم بھی ہے

تُو اکیلا تو نہیں عشق کے ہاتھوں برباد

جیسا تیرا وہی رضوان کا عالم بھی ہے


رضوان حیدر

No comments:

Post a Comment