یہ دنیا ہر قدم پر آدمی کا امتحاں کیوں ہے
جدا ہر آدمی سے آدمی کا کارواں کیوں ہے
محبت ساری دنیا کے لیے روح رواں کیوں ہے
سیاست کے فلک پر آج نفرت کا دھواں کیوں ہے
ہوا تو مختلف ہے نہ موافق بھی مخالف بھی
معطر ان ہواؤں سے ہمارا جسم و جاں کیوں ہے
جسے بھی دیکھیے وہ لوٹنے کے فن میں ہے ماہر
ہوس کی غرض میں یہ زندگی کا کارواں کیوں ہے
جوانی جس نے بچوں کے لیے قربان کر ڈالی
بڑھاپا اس کا بچوں کے لیے بار گراں کیوں ہے
کسی معصوم کی ایڑی سے جب چشمہ ابلتا ہے
سونامی کیسے آتی ہے منیب آتش فشاں کیوں ہے
منیب مظفرپوری
No comments:
Post a Comment