Sunday, 10 August 2025

بھرنے لگتا ہے کوئی زخم تو جب پوچھتے ہیں

 بھرنے لگتا ہے کوئی زخم تو جب پوچھتے ہیں

لوگ یوں تجھ سے بچھڑنے کا سبب پوچھتے ہیں

کیا تمسخر ہے بلندی بھی کہ اب حال اپنا

پہلے جن لوگوں نے پوچھا نہیں اب پوچھتے ہیں

اپنا پیکر نہیں پہچان بدل کر آؤ

یہ وہ محفل ہے جہاں نام و نسب پوچھتے ہیں

حسن والوں کی ادا ہے کہ جفا ہے کیا ہے

ہجر زادوں سے یہ افسانۂ شب پوچھتے ہیں

عرضی انصاف کی ہم نے بھی لگا رکھی ہے

دیکھیے ظل الٰہی ہمیں کب پوچھتے ہیں

قدر دانوں کی کمی ہے مگر انجم صاحب

تم نہیں ہوتے ہو محفل میں تو سب پوچھتے ہیں


شہزاد انجم برہانی

No comments:

Post a Comment