جن کی خاطر سب سے بیگانے ہوئے
ہائے وہ لمحے بھی افسانے ہوئے
پھر کسی کے ہو نہ پائے عمر بھر
آپ کے ہو کر جو بیگانے ہوئے
کس سے کہئے اپنے قاتل ہیں وہی
تھے مسیحا جن کو گردانے ہوئے
دیکھتے تھے ہم نگاہ راہبر
ورنہ تھے رہزن تو پہچانے ہوئے
اب قفس کی زندگی سے کیا گریز
جب یہیں تقدیر کے دانے ہوئے
سو رہا ہے نوع آدم کا ضمیر
اک ردائے بے حسی تانے ہوئے
ہو گئے افضل وطن میں اجنبی
ہر گلی کے جانے پہچانے ہوئے
افضل کرتپوری
افضال حسین
No comments:
Post a Comment