اگر زاہد تو محفل میں ہماری ایک بار آئے
اسی جانب کو پھر اٹھیں قدم بے اختیار آئے
جو آئے میکدے سے بے خود و مستانہ وار آئے
کہیں ایسا نہ ہو با ہوش کوئی بادہ خوار آئے
دل و ایماں و دیں ہوش و خرد کچھ بھی نہیں باقی
کسی کی ہم نگاہ ناز کا صدقہ اتار آئے
پلائی آج میخانے میں نظروں سے شراب ایسی
دعا دیتے ہوئے ساقی کو سارے بادہ خوار آئے
ستم سہہ سہہ کے کاٹی عمر ساری اف نہ کی ہم نے
وفاؤں کا مری اے کاش ان کو اعتبار آئے
وفا نیازی
No comments:
Post a Comment