کتنے ہی رنگ کھلے جاتے ہیں شادابی میں
تم نے دیکھا ہے مجھے عالمِ بے خوابی میں
چشم نمناک ہے خوابوں کی نمو یابی میں
اور ہم محو ہیں اک عالمِ غرقابی میں
یہ محبت ہے جنوں ہے یا فسانہ ہے کوئی
کیسے اسرار ہیں پنہاں مِری بیتابی میں
کتنے طوفان سمیٹے ہوئے ہم رہتے ہیں
کتنی ہلچل ہے مچی اس دل سیلابی میں
کیسے ہی رمز سحر ہم پہ کھلے جاتے ہیں
کیا سکوں پاتے ہیں ہم لمحۂ سیرابی میں
مہر حسین نقوی
No comments:
Post a Comment