Thursday, 14 August 2025

کتنے ہی رنگ کھلے جاتے ہیں شادابی میں

 کتنے ہی رنگ کھلے جاتے ہیں شادابی میں

تم نے دیکھا ہے مجھے عالمِ بے خوابی میں

چشم نمناک ہے خوابوں کی نمو یابی میں

اور ہم محو ہیں اک عالمِ غرقابی میں

یہ محبت ہے جنوں ہے یا فسانہ ہے کوئی

کیسے اسرار ہیں پنہاں مِری بیتابی میں

کتنے طوفان سمیٹے ہوئے ہم رہتے ہیں

کتنی ہلچل ہے مچی اس دل سیلابی میں

کیسے ہی رمز سحر ہم پہ کھلے جاتے ہیں

کیا سکوں پاتے ہیں ہم لمحۂ سیرابی میں


مہر حسین نقوی

No comments:

Post a Comment