اس درد لا جواب سے پرہیز کیا کریں
ہوتی نہیں جناب سے پرہیز کیا کریں
اے تجربات زندگی! پہلا پڑاؤ ہے
غلطی کے ارتکاب سے پرہیز کیا کریں
خود ہی تو دی ہیں اے خدا دنیا کی لذتیں
ہم لوگ دستیاب سے پرہیز کیا کریں
مدت رہے ہیں یار تری جستجو میں ہم
صحرا میں ہیں سراب سے پرہیز کیا کریں
جب ذہن و دل میں یاد کی تختی لگی رہے
آنکھیں کسی کے خواب سے پرہیز کیا کریں
اپنی کتاب زیست کا عنوان عشق ہے
تو پھر جنوں کے باب سے پرہیز کیا کریں
ہر دن نکل کے سامنے آتا ہے آفتاب
ہم حسن بے حجاب سے پرہیز کیا کریں
شیراز مانتے ہیں کہ عادت خراب ہے
پر عادت خراب سے پرہیز کیا کریں
شیراز علی
No comments:
Post a Comment