Monday, 3 November 2025

دیوار و در کے بیچ میں صحرا ہے یار ہے

دیوار و در کے بیچ میں صحرا ہے یار ہے

اے سانس! بتا کس کا تجھے انتظار ہے

بھولے ہوئے سے ظلم و ستم کا ہے ماجرا

دھرتی پہ آج بکھرا ہوا انتشار ہے

اے تاجروں کے سانس کی تہذیب سن مجھے

تُو جانتی ہے تیرا کہاں اقتدار ہے

نوچا ہے کس نے آن کر میری حیات کو

جسموں کی کائنات بڑا بے قرار ہے

خوشتر رُتوں سے پوچھتی پھرتی ہے چاندنی

میرا وجود کس کے لیے سازگار ہے


خوشتر مکرانوی

No comments:

Post a Comment