اک بت ہے جسے میری نظر ڈھونڈ رہی ہے
مشکل ہے ملاقات مگر ڈھونڈ رہی ہے
لاکھوں میں کسی ایک کے کاندھوں پہ ملے گا
وہ سر کہ جسے عظمت سر ڈھونڈ رہی ہے
منزل نے میرے پاؤں کو چوما ہے کئی بار
میں وہ ہوں جسے گردِ سفر ڈھونڈ رہی ہے
اک بار کرو جنگ میں اس ماں کا تصور
جو فوت ہوا لختِ جگر ڈھونڈ رہی ہے
پرواز کو باقی ہیں ابھی اور بھی امبر
حسرت میری اب ظرف کے پر ڈھونڈ رہی ہے
اک روز اداسی نے مِرا نام سنا تھا
اس دن سے مجھے شام و سحر ڈھونڈ رہی ہے
خواہش ہے بڑی دیر سے کافر کی جبیں کو
سجدے کے لیے یار کا در ڈھونڈ رہی ہے
جگجیت کافر
No comments:
Post a Comment