Monday, 17 November 2014

کہوں کس سے قصہ درد و غم کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے

کہوں کِس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے، تِری یاد ہے، جو شفیق ہے، دلِ زار ہے
تُو ہزار کرتا لگاوٹیں، میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اس کی خبر نہ تھی، تِرا دو ہی دن کا یہ پیار ہے
یہ نوید اوروں کو جا سنا، ہم اسیرِ دام ہیں، اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ پر، ہمیں کیا جو فصلِ بہار ہے
وہ نظرجو مجھ سے ملا گئے، تو یہ اور آفتیں ڈھا گئے
کہ حواس و ہوش و خِرد ہے اب، نہ شکیب و صبر و قرار ہے
میں سمجھ گیا وہ ہیں بے وفا، مگر ان کی راہ میں ہوں فِدا
مجھے خاک میں، وہ ملا چکے، مگر اب بھی دل میں غبار ہے
مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر، تِرا حال اکبرِؔ نوحہ گر
تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے، کہ تُو جس کا عاشقِ زار ہے

اکبر الہ آبادی

No comments:

Post a Comment