بہت رہا ہے کبھی لطفِ یار ہم پر بھی
گزر چکی ہے یہ فصلِ بہار ہم پر بھی
عروسِ دہر کو آیا تھا پیار ہم پر بھی
یہ بیسوا تھی کسی شب نثار ہم پر بھی
بٹھا چکا ہے زمانہ ہمیں بھی مسند پر
ہوا کئے ہیں جواہر نثار ہم پر بھی
عدو کو بھی جو بنایا ہے تم نے محرمِ راز
تو فخر کیا، جو ہوا اعتبار ہم پر بھی
خطا کسی کی ہو لیکن کھلی جو ان کی زباں
تو ہو ہی جاتے ہیں دو ایک وار ہم پر بھی
ہم ایسے رِند، مگر یہ زمانہ ہے وہ غضب
کہ ڈال ہی دیا دنیا کا بار ہم پر بھی
ہمیں بھی آتشِ الفت جلا چکی اکبرؔ
حرام ہو گئی دوزخ کی نار ہم پر بھی
گزر چکی ہے یہ فصلِ بہار ہم پر بھی
عروسِ دہر کو آیا تھا پیار ہم پر بھی
یہ بیسوا تھی کسی شب نثار ہم پر بھی
بٹھا چکا ہے زمانہ ہمیں بھی مسند پر
ہوا کئے ہیں جواہر نثار ہم پر بھی
عدو کو بھی جو بنایا ہے تم نے محرمِ راز
تو فخر کیا، جو ہوا اعتبار ہم پر بھی
خطا کسی کی ہو لیکن کھلی جو ان کی زباں
تو ہو ہی جاتے ہیں دو ایک وار ہم پر بھی
ہم ایسے رِند، مگر یہ زمانہ ہے وہ غضب
کہ ڈال ہی دیا دنیا کا بار ہم پر بھی
ہمیں بھی آتشِ الفت جلا چکی اکبرؔ
حرام ہو گئی دوزخ کی نار ہم پر بھی
اکبر الہ آبادی
No comments:
Post a Comment