Monday 26 December 2016

مشرق میں غریبوں کی نہیں کوئی رہی گور

مشرق میں غریبوں کی نہیں کوئی رہی گور 
سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہیں مغرب کے کفن چور 
لکھتا ہوں فلسطیں کے شہیدوں کی کہانی 
آلودہ لہو سے ہیں میری انگلیوں کے پور 
یہ خون ہے وہی جسکی جھلکتی ہوئی سرخی 
ہے مایۂ رنگینئ افسانۂ بالفور 
ہیں تیرہ و تاریک کلیسا کی فضائیں
چھائ ہوئ ہے جس پہ گھٹا جنگ کی گھنگھور
غلطاں ہے ادھر خاک میں جسم جشتاں 
ہسپانیہ کی نعش ادھر خوں میں شرابور
سن سن کے اتاترک کی تلوار کی جھنکار 
روما کو دبا اور تو برلن کی دبی کور 
فسطائیوں اور نازیوں کی فتنہ گری سے 
چرچل ہیں سراسیمہ تو وحشت زدہ ہیں ہور 
تارا ہوئ جاتی ہیں نصاریٰ کی پتنگیں 
یارب انہیں کیوں اتنی پلائی گئی ہے ڈور 
ملتا ہے کسی کو نہ یہ زاری سے نہ زر سے 
انصاف ملے گا اسے حاصل ہو جسے زور 

مولانا ظفر علی خان

No comments:

Post a Comment