محبت مار دیتی ہے
محبت مار دیتی ہے
زمیں میں گاڑ دیتی ہے
نہ اپنا دن ہی رہتا ہے
نہ اپنی رات رہتی ہے
کوئی پرواہ دنیا کی
نہ فکرِ ذات رہتی ہے
کبھی نہ سامنے آئے یہ چھپ کر وار کرتی ہے
سو کچھ کچھ آر کر کے بھی یہ بالکل پار کرتی ہے
محبت دل میں بس جائے
تو دھڑکن سُر میں چلتی ہے
جگر پہ ہاتھ رکھ دے تو روانی خوں کی بڑھتی ہے
یہ سردی میں حرارت ہے
تو گرمی میں سکوں آور
جو آنکھوں میں سما جائے
تو ہر منظر سجاتی ہے
محبت سننے لگ جائے
تو ہر آواز ہے خوش کن
تخیل میں چلی آئے
تو شعروں میں یہ ڈھلتی ہے
جو پلکیں موند لیں تو پھر
سہانے خواب بُنتی ہے
یہ پھولوں پر چلاتی ہے
یہ بانہوں میں سُلاتی ہے
محبت کی انہی راہوں پہ جب کچھ موڑ آتے ہیں
بہت سے وسوسے پھر اپنا اپنا سر اٹھاتے ہیں
بظاہر دل دھڑکتا ہے
نظامِ خوں بھی چلتا ہے
مگر سہمی سی لب ڈب رفتہ رفتہ ڈگمگاتی ہے
بدن کے سارے خلیے خوف سے جب جب لرزتے ہیں تو جلدی تھکنے لگتے ہیں
یوں نیندیں ٹوٹ جاتی ہیں
زبانیں سوکھ جاتی ہیں
تو عصبی رابطوں کی پھر لگامیں چھوٹ جاتی ہیں
مگر سب یاد رہتا ہے
سکوں برباد رہتا ہے
کہ نقدی جان کی
خود ہاتھ سے ہی وار دیتی ہے
بظاہر جیت کر بھی سارا جیون ہار دیتی ہے
محبت مار دیتی ہے
غزالہ فیضی
No comments:
Post a Comment